You are on page 1of 2

‫ٹیوشن کلچر‬

‫تاریخ اشاعت ‪06-01-2008 -‬‬

‫پاکستان کے عوام دہشت گردی ‪ ،‬تعلیم‪ ،‬غربت‪ ،‬طبی سہولتوں کا فقدان‬


‫اور دیگر مسائل کا شکار ہیں ان سے نجات کوئی مسیحا ہی دل سکتا ہے ورنہ‬
‫ملکی حالت کے پیش نظر حکومتوں کے رد و بدل سے یہ امکان دور دور تک‬
‫دکھائی نہیں دیتا۔ مگر گزارش ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیوں کہ ہر‬
‫سورج کے غروب ہونے کے بعد چاند طلوع ہوتا ہے۔‬

‫آج کل تعلیمی اداروں میں ایک وبا ہے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے وہ‬
‫ٹیوشن کا بخار ہے۔ ہمارے ہاں یہ کلچر عام ہے اور اگر ٹیوشن نہ لو تو اسکول کے‬
‫بچے طنز کرتے ہیں۔جو بچے ٹیوشن لیتے ہیں وہ اساتذہ کی نظر میں رہتے ہیں۔ اب‬
‫یہ ایک امیر انسان کی پہچان بن گیا ہے کہ اس کے پاس گاڑی ہے‪ ،‬بنگلہ‪ ،‬نوکر‬
‫چاکر اور بینک بیلنس ہے اور کیا اس کے بچے مہنگے کوچنگ سینٹر میں ٹیوشن‬
‫پڑھتے ہیں یا نہیں۔‬

‫افسوس ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے‪ ،‬کیوں اس قدر تنگ نظری کے بادل‬
‫ہمارے اوپر منڈل رہے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندہ پستی کی طرف جا رہی ہے‪،‬‬
‫ہماری ڈگری کی دوسرے ممالک میں حیثیت نہیں رہی۔ تعلیم اداروں کی صوبہ‬
‫سندھ میں حالت زیادہ خراب ہے اس لئے ضروری ہے یہاں ہنگامی بنیادوں پر‬
‫تعلیمی پالیسیوں کو تبدیل اور آئی بی اے یا ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے‬
‫ان اداروں کا احتساب کیا جائے۔‬

‫نصاب جدید دور کے مطابق کیا جائے ‪ ،‬اساتذہ کرام کو جدید دور سے‬
‫روشناس کرایا جائے‪ ،‬تحقیق کی طرف طلبہ اور اساتذہ کو متوجہ کرنا ہو گا اور‬
‫انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی ٹریننگ اور ورکشاپس رکھی جائیں اور آئندہ میرٹ پر‬
‫اساتذہ کرام کو رکھا جائے کیوں کہ نا اہل اور سفارشی افراد تعلیمی نظام کی‬
‫تباہی کا بڑا سبب ہیں۔‬

‫یہ لوگ جو نہ اپنے پیشے سے سچے ہیں اور نہ ہماری آنے والی نسل کو‬
‫اقبال کا شاہین بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو میرٹ کے مطابق معاوضہ دیا‬
‫جائے‪،‬ان کی حاضری کو لزمی بنایا جائے اور ٹیوشن کلچر کو فروغ دینے کی‬
‫بجائے ختم کیا جائے۔ بچوں کا کوئی قصور نہیں وہ تو اپنا مستقبل بہتر بنانا چاہتے‬
‫ہیں۔ عملی طور پر کچھ کر نا ہو گا اور اس فرسودہ سسٹم کو تبدیل کرنا ہو‬
‫گا۔‬

‫سرکاری اسکول‪ ،‬کالجز اور یونیورسٹیز کو زیادہ سے زیادہ اس پر سوچنا‬


‫ہو گا ورنہ حالت تبدیل نہیں ہوں گے اور جس طرح بنگلہ دیش‪ ،‬ہندوستان اور‬
‫سری لنکا اور ایشیا کے دوسرے ممالک ہم سے کئی گنا آگے جا چکے ہیں‪ ،‬ہمارے‬
‫نصیب میں افسوس کے علوہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ لیکن اب بھی زیادہ وقت نہیں‬
‫گزرا ہے اور اگر وقت کی لگام کو تھام لیا تو ممکن ہے ہم بہت آگے چلے جائیں‬
‫کیوں کہ ہمارے ہاں باصلحیت افراد کی کمی نہیں ہے۔‬

‫ہمارے ہونہار اور ذہین طلبہ بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ حکومت سے‬
‫التماس ہے کہ نئی نسل ہمارا مستقبل ہے صرف توجہ درکار ہے پھر اس کے اس‬
‫قدر مثبت نتائج نکلیں گے کہ دوسرے ممالک کے طلبہ بھی پاکستان میں تعلیم‬
‫حاصل کر فخر محسوس کریں گے۔‬

‫اب والدین پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک وقت تھا یہ بچوں کو گھروں میں خود‬
‫پڑھائی کراتے تھے اور ٹائم دیتے تھے اور ٹیوشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے‬
‫شرم محسوس کرتے تھے ۔ والدین کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا‬
‫ورنہ بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔‬

‫تحریر‪ :‬عبدالوحید م ہر ۔ کراچی‬

You might also like