عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان سنسکرت ہے اور باقی تمام زبانیں اس کی نقل ہیں، لیکن تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی کوئی قدیم زبان تھی جو بدلتے بدلتے سنسکرت یا قریب التلفظ سنسکرت بن گئی اور اسکے اصل وارث برہمن قرارپائے، جنھوں نے اسے زبانِ الہی سمجھ اپنے ہی طبقے کیلئے مخصوص کر لیا اور اس قدر حفاظت کی کہ غیر برہمن کو اسکا حاصل کرنا مدتوں دشوار رہا۔ اسی خود گرضی کے باعث بدہسٹ نے ایک نئی زبان ایجاد کی اور اسکو اس قدر بڑھایا کہ اسکا حلقۂ اثر تمام ملک میں پھیل گیا اور رفتہ رفتہ ہر حصۂ ملک کی زبان علیحدہ ہوتی چلی گئی۔ انھی میں سے راجہ بھرت کے ایوانِ شاہی کی زبان برج کہلاتی تھی۔ جس کے بولنے اور سمجھنے والے اسکے ہم نشیں تھے۔ جب مسلمانوں کا قدم ہندوستان میں آیا تو اس زبان میں بھی تغیر شروع ہوا اور چونکہ عربی، ترکی اور فارسی زبانوں کا اِس ایک زبان سے اتصال ہوا اس ایک نئی قسم کی زبان پیدا ہوئی جس کا نام ریختہ رکھا گیا۔
شمس الدین ولی دکنی کو اردو (ریختہ) کا پہلا شاعرہ گردانا جاتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خان اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں تھے۔ میر تقی میر اپنے تذکرہ میں لکھتے اورنگ آبادی لکھتے ہیں جس سے اُن کے مولد و منشاء کا صحیح پتہ نہیں ملتا۔ ادھر خود جناب ولی نے یہ کہکر
ولی ایران و توران میں ہے مشہور
وطن گو اس کا گجرات و دکن ہے
مسئلہ وطن اور کو ابھی پیچیدہ کر دیا ہے۔ کلام کو دیکھتے ہوئے میر تقی میر کا قول قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ تمام دیوان میں سوائے دکنی محاوارات اور الفاظ کے گجراتی زبان کا کوئی لفظ نہیں ملتا۔
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان سنسکرت ہے اور باقی تمام زبانیں اس کی نقل ہیں، لیکن تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی کوئی قدیم زبان تھی جو بدلتے بدلتے سنسکرت یا قریب التلفظ سنسکرت بن گئی اور اسکے اصل وارث برہمن قرارپائے، جنھوں نے اسے زبانِ الہی سمجھ اپنے ہی طبقے کیلئے مخصوص کر لیا اور اس قدر حفاظت کی کہ غیر برہمن کو اسکا حاصل کرنا مدتوں دشوار رہا۔ اسی خود گرضی کے باعث بدہسٹ نے ایک نئی زبان ایجاد کی اور اسکو اس قدر بڑھایا کہ اسکا حلقۂ اثر تمام ملک میں پھیل گیا اور رفتہ رفتہ ہر حصۂ ملک کی زبان علیحدہ ہوتی چلی گئی۔ انھی میں سے راجہ بھرت کے ایوانِ شاہی کی زبان برج کہلاتی تھی۔ جس کے بولنے اور سمجھنے والے اسکے ہم نشیں تھے۔ جب مسلمانوں کا قدم ہندوستان میں آیا تو اس زبان میں بھی تغیر شروع ہوا اور چونکہ عربی، ترکی اور فارسی زبانوں کا اِس ایک زبان سے اتصال ہوا اس ایک نئی قسم کی زبان پیدا ہوئی جس کا نام ریختہ رکھا گیا۔
شمس الدین ولی دکنی کو اردو (ریختہ) کا پہلا شاعرہ گردانا جاتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خان اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں تھے۔ میر تقی میر اپنے تذکرہ میں لکھتے اورنگ آبادی لکھتے ہیں جس سے اُن کے مولد و منشاء کا صحیح پتہ نہیں ملتا۔ ادھر خود جناب ولی نے یہ کہکر
ولی ایران و توران میں ہے مشہور
وطن گو اس کا گجرات و دکن ہے
مسئلہ وطن اور کو ابھی پیچیدہ کر دیا ہے۔ کلام کو دیکھتے ہوئے میر تقی میر کا قول قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ تمام دیوان میں سوائے دکنی محاوارات اور الفاظ کے گجراتی زبان کا کوئی لفظ نہیں ملتا۔
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان سنسکرت ہے اور باقی تمام زبانیں اس کی نقل ہیں، لیکن تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی کوئی قدیم زبان تھی جو بدلتے بدلتے سنسکرت یا قریب التلفظ سنسکرت بن گئی اور اسکے اصل وارث برہمن قرارپائے، جنھوں نے اسے زبانِ الہی سمجھ اپنے ہی طبقے کیلئے مخصوص کر لیا اور اس قدر حفاظت کی کہ غیر برہمن کو اسکا حاصل کرنا مدتوں دشوار رہا۔ اسی خود گرضی کے باعث بدہسٹ نے ایک نئی زبان ایجاد کی اور اسکو اس قدر بڑھایا کہ اسکا حلقۂ اثر تمام ملک میں پھیل گیا اور رفتہ رفتہ ہر حصۂ ملک کی زبان علیحدہ ہوتی چلی گئی۔ انھی میں سے راجہ بھرت کے ایوانِ شاہی کی زبان برج کہلاتی تھی۔ جس کے بولنے اور سمجھنے والے اسکے ہم نشیں تھے۔ جب مسلمانوں کا قدم ہندوستان میں آیا تو اس زبان میں بھی تغیر شروع ہوا اور چونکہ عربی، ترکی اور فارسی زبانوں کا اِس ایک زبان سے اتصال ہوا اس ایک نئی قسم کی زبان پیدا ہوئی جس کا نام ریختہ رکھا گیا۔
شمس الدین ولی دکنی کو اردو (ریختہ) کا پہلا شاعرہ گردانا جاتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خان اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں تھے۔ میر تقی میر اپنے تذکرہ میں لکھتے اورنگ آبادی لکھتے ہیں جس سے اُن کے مولد و منشاء کا صحیح پتہ نہیں ملتا۔ ادھر خود جناب ولی نے یہ کہکر
ولی ایران و توران میں ہے مشہور
وطن گو اس کا گجرات و دکن ہے
مسئلہ وطن اور کو ابھی پیچیدہ کر دیا ہے۔ کلام کو دیکھتے ہوئے میر تقی میر کا قول قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ تمام دیوان میں سوائے دکنی محاوارات اور الفاظ کے گجراتی زبان کا کوئی لفظ نہیں ملتا۔