Professional Documents
Culture Documents
پر لگا دی ،تفصیالت کے مطابق اچھرہ ،گرین ٹاﺅن ،داروغہ واال،سالمت پورہ سمیت
اکثر عالقوں میں مصروف بازاروں میں دوکانوں کے اندر پیٹرول ڈالنے والی مشینیں لگا
کر غیرقانونی پیٹرول پمپس شروع کر دیئے گئے ہیں جن کی موجودگی کسی بھی وقت
کسی بڑے سانحہ کا باعث بن سکتی ہے ،سروے رپورٹ کے مطابق ان تمام غیرقانونی
پیٹرول پمپس کے مالکان میں سے کسی کے پاس کو ئی حکومتی اجازت نامہ یا الئسنس
نہیں ہے یہ تمام غیرقانونی پیٹرول پمپس ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کے نام سے چل
رہے ہیں اور دوکانوں پر باقاعدہ پیٹرول بیچنے والی کمپنیوں کے بورڈ آوایزاں کئے گئے
ہیں۔عوام اپنی سمجھ کے مطابق پیٹرول ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے خرید رہے ہیں
جب کہ پیٹرول کا ریٹ حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے 10روپے تک فی لیٹر زائد
وصول کیا جارہا ہے۔
پولیس اور ٹاﺅن انتظامیہ کو منتھلی دے رہے ہیں کسی کی کیا مجال کہ ہمارے پمپ کو بند کر
ادے۔ عالقہ کے اثرورسوخ رکھنے افراد کے مطابق یہ لوگ اپنا رزق کما رہے ہیں ،پولیس اگر
ایسے پمپس کو بند کرانے کےلئے آئی تو ہم ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔پیٹرول پمپ پر کسی
ناخوشگوار واقع رونما ہوجانے کی صورت میں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات موجو د نہیں ،
ایسے غیر قانونی پیٹرول پمپس پر ہر وقت ایک پالسٹک کے بڑے سے ٹینک میں تقریبا ً ایک
ہزار لیٹر پیٹرول موجود رہتا ہے جس جو آگ لگنے کی صورت میں مصروف بازار میں بہہ
جانے کی صورت میں انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے ۔مگر پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی
بن کر عوام کے جان و مال کی دشمن بنی ہوئی ہے ۔
…………………………………………………………………….
سیاسی پشت پناہی ،پیسے کا کمال ،الہور میں غیرقانونی پٹرول پمپس کی
بھرمار
سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے شہر کے گنجان آباد عالقوں میں غیر قانونی منی پٹرول پمپس کا
دھندہ عروج پر پہنچ گیا۔ ہ طالش بٹ نامی مسلم لیگ نون کا رہنما تین الکھ روپے میں منی پٹرول
پمپ کا سیٹ اپ لگواتا ہے۔
شہر میں جاری غیر قانونی پٹرول پمپس کا سروے کیا تو منی پٹرول پمپ مالکان نے بتایا کہ سیاسی
اثرورسوخ کی بدولت ہی منی پیٹرول پمپ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ایکشن ٹیموں کی جانب سے
جعلی پٹرول پمپوں کے خالف متعدد بار کارروائی کی ہے لیکن یہ جرمانہ ادا کر کے دوبارہ
کاروبار شروع کر لیتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ پٹرول پمپ لگانے کے لیے الکھوں درکار ہیں یا ایکسپلوسو
ڈیپارٹمنٹ اور اوگرا سے الئسنس کی ضرورت ہے۔ بس ایک دکان کرائے پر لیں
پٹرول مشین خریدیں اور آٹھ دس ڈرم پٹرول کے رکھ کے بسم ہللا کریں۔
عوامی ،سماجی اور فالحی حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمہ سول ڈیفنس اور متعلقہ
ادارے دھٹرلے کے ساتھ رشوت وصول کرتے ہیں اور افسران باال کو سب اچھا کی
رپورٹ دیتے ہیں۔
کچھ منی پٹرول پمپس دکانوں میں قائم ہیں تو کچھ کرائے کے مکانوں میں
بنائےگئے ہیں جن میں گھر کے سامنے پٹرول مشین نصب ہے۔اس غیر قانونی
کاروبار پر کچھ الئسنس یافتہ پٹرول پمپ مالکان بھی سیخ پا ہیں جن کا الکھوں کا
کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔غیر قانونی منی پٹرول پمپ مالکان آگ سے کھیل رہے ہیں
پٹرول ایک خطرناک پھٹنے واال مادہ ہے جس کی منتقلی اور سٹوریج کے لیے
حفاظتی تدابیر اختیار کرنا بے حد ضروری ہے۔
حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پٹرول پمپ عموما پانچ کنال یا اس سے
زائد جگہ پر بنایا جاتا ہے اور آگ سے بچاﺅ کے لیے ریت کی بالٹیاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا
ذخیرہ رکھنے سمیت پٹرول ٹینک زیر زمین محفوظ جگہ پر بنائے جاتے ہیں۔
زیادہ تر پٹرول پمپس آگ سے بچاﺅ کا خودکار نظام رکھتے ہیں اور منی پٹرول پمپ ان
تمام سہولیات سے محروم ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی ناگہانی حادثے کا سبب بن سکتے
ہیں۔منی پٹرول پمپس کا معاملہ سول ڈیفنس اور اسسٹنٹ کمشنر سے تعلق رکھتا ہے۔ وہی
اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ان کو اجازت کس قانون کے تحت دی گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جن معاشروں میں سب چلتا ہے وہ معاشرے مشکل ہی چلتے ہیں۔ ایک
عشرے سے قائم ان غیر قانونی منی پٹرول پمپ مالکان کے خالف انتظامیہ نہ جانے کب
حرکت میں آئے گی لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم کسی سانحے کے بعد ہی ہوش میں
آتے ہیں۔
پٹرول پمپ کےلیے الئسنس کے حصول کے طریقہ کار
سب سے پہلے ہم اوگرا کو درخواست دیتے ہیں جو دو سال کے لیے پرویژنل سرٹیفکیٹ
جاری کرتی ہے۔ اس دوران ٹی ایم اے ،این ایچ اے ،ڈی سی او اور سول ڈیفنس سے این او
سی لینا پڑتا ہے۔ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ جگہ کا معائنہ کرتا ہے آیا کہ جگہ پٹرول پمپ کے
لیے موزوں ہے یا نہیں اور آبادی کے لیے خطرے کا باعث تو ٰنہیں ان تمام لوازمات کو
پورا کرنے کے بعد اوگرا 15سال کے لیے الئسنس جاری کرتی ہے۔اوگرا کے عالوہ
کوئی ادارہ پٹرول پمپ قائم کرنے کی اجازت دینے کی اتھارٹی نہیں رکھتا ۔حفاظت کے
پیش نظر اوگرا ہر سال ہر پٹرول پمپ کی انسپکشن کراتی ہے جس کی فیس پچاس ہزار
روپے ساالنہ ہے سول ڈیفنس والے اور ہیومن ریسورس والے بھی وقتا فوقتا چکر لگاتے
ہیں اور حفاظتی تدابیر کے حوالے سے ہدایات دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زون نشتر ٹاﺅن کے عملے کی ملی بھگت سے عالقے میں درجن سے زائدمنی پیٹرول پمپس کھل
گئے مقامی انتظامیہ بھاری رشوت لیکر خاموش عالقے میں خطرات کے بادل منڈالنے لگے۔ بندیاں
واال پل چونگی امرسدھو،کچا جیل روڈ مہر چوک ،شنگھائی پل ،چندراواں روڈ چوک،بابر
چوک،ودیگر عالقوں میں دوکانیں کرایہ پر لیکرپٹرول پمپس کی مشینیں لگا کر منی پٹرول پمپس
قائم کر لئے گئے جنکے حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں دوکانوں کے اندر پانی کی
ٹنکیوں میں پٹرول بھرا ہوا ہے۔ پٹرول ڈلوانے والے شہری سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ مقامی
انتظامیہ کو علم ہونے کے باوجود منی پٹرول پمپس کے خالف کاروائی نہیں کر رہی منی پٹرول
پمپس مالکان سے بھاری رشوت لیکر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اہل عالقہ نے وزیر اعلی ڈی
سی او الہور الرڈ میئر الہور ڈپٹی میئر زون نشتر ٹاﺅن سے مطالبہ کیا ہے کہ ان منی پٹرول پمپس
کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
…………………………………………………………………..
غیر صوبائی دارالحکومت ایک مرتبہ پھر منی پٹرول پمپوں کی منڈی میں تبدیل ہو گیا ہے۔
قانونی طور پر مالوٹ شدہ جگہ جگہ پٹرول فروخت کرنے والوں کے سرپرست ایک مرتبہ پھر
ضلعی حکومت کے محکمہ ماحولیات اور انڈسٹری اور لیبر بن گئے ہیں جنہوں نے غیر قانونی
طور پر شہرمیں جگہ جگہ منی پٹرول پمپ قائم کرا رکھے ہیں ان کے پاس باقاعدہ طور پر
مذکورہ محکموں کے این او سی موجود ہیں اور انہوں نے شہر میں جگہ جگہ منی پٹرول لے نام
ایجنسیوں کے مالکان کے پاس مذکورہ محکموں کے جاری کردہ این او سی اور اجازت نامے
کئی کئی سال کیلئے زائد المیعاد ہو چکے ہیں۔ منی پٹرولیم کے اڈوں پر زیادہ تر پٹھان ایران سے
سمگل شدہ غیر قانونی پٹرول سپالئی کرتے ہیں جبکہ سرکاری محکموں کے ڈرائیور اور دیگر
سرکاری اہلکار بھی ان ایجنسیوں پر سستاپٹرول فروخت کر دیتے ہیں جو مہنگے د اموں پر
منی پٹرول کا گڑھ راوی ٹاﺅن ہے جس کی 13یونین کونسلوں گلی محلوں کے اندر 470مقامات
دوسرے نمبر پر مقامات پر 21پر غیر قانونی طور پر پٹرولیم مصنوعات فروخت جا ری ہے
دوسرے نمرپر نشتر ٹاﺅن جہاں رہائشی آبادیوں میں 421مقامات پر منی پٹرول پمپ قائم ہیں ہیں
جن میں چوری اور ایران سے سمگل شدہ تیل فروخت ہو رہا ہے۔
، 223سمن آباد ٹاﺅن میں 257گلبرگ ٹاﺅن میں 259اقبال ٹاﺅن میں 263میں
شاال مار ٹاﺅن میں 209مقامات پر غیر قانونی ایجینسیاں قائم ہیں۔
.