You are on page 1of 6

‫سورۃالنساء " آیت نمبر‪11:‬‬

‫سردار عمیر احمد۔۔۔۔ قرآن مجید کی ڈائری‬

‫بتاریخ‪ 30:‬مارچ ‪2019‬‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫الحمد ہللا رب العالمین‪ ،‬االصلوۃ و السالم علی محمد االمین‬

‫فآعوذ با ہلل من الشیطن الرجیم۔۔۔۔ بسم ہللا الرحمن الرحیم‬

‫ق‬ ‫سا ٓ ًء فَ ۡو َ‬ ‫ِللذَّك َِر ِم ۡث ُل َح ِظ ۡاَلُ ۡنثَيَ ۡي ِنۚ فَا ِۡن كُنَّ نِ َ‬ ‫ّٰللاُ فِ ۡۤۡى ا َ ۡو ََل ِدكُمۡ‬
‫يُ ۡو ِص ۡي ُك ُم ه‬
‫اح ٍد‬ ‫ف َو َِلَبَ َو ۡي ِه ِلك ُِل َو ِ‬ ‫ص ُ‬‫اح َدةً فَلَ َها النِ ۡ‬ ‫ۡاثنَت َ ۡي ِن فَلَ ُهنَّ ثُلُثَا َما ت َ َركَ ۚ َوا ِۡن كَانَ ۡت َو ِ‬
‫ۤۡ‬
‫ُس ِم َّما ت َ َركَ ا ِۡن كَانَ لَ ٗه َولَد ۚۚ فَا ِۡن لَّمۡ يَك ُۡن لَّ ٗه َولَد َّو َو ِرث َ ٗه اَبَ ٰوهُ‬ ‫سد ُ‬ ‫ِم ۡن ُه َما ال ُّ‬
‫ۢۡ‬ ‫ۤۡ‬
‫ُس ِم ۡن بَ ۡع ِد َو ِصيَّ ٍة يُّ ۡو ِص ۡى بِ َه ۤۡا ا َ ۡو‬ ‫سد ُ‬ ‫ث فَا ِۡن كَانَ لَ ٗه ا ِۡخ َوة فَ ِِلُ ِم ِه ال ُّ‬ ‫فَ ِِلُ ِم ِه الثُّلُ ُ‬
‫ۡ‬
‫ّٰللاِ اِنَّ ه‬
‫ّٰللاَ‬ ‫ب لَـكُمۡ نَ ۡفعًا فَ ِر ۡيضَةً ِمنَ ه‬ ‫د َۡي ٍن ٰابَا ٓ ُؤكُمۡ َوا َ ۡبنَا ٓ ُؤكُمۡۚ ََل ت َ ۡد ُر ۡونَ اَيُّ ُهمۡ اَق َر ُ‬
‫ع ِل ۡي ًما َح ِك ۡي ًما ﴿‪﴾۱۱‬‬ ‫كَانَ َ‬
‫خدا تمہاری اوالد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو‬
‫لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اوالد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی‬
‫دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو‬
‫تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا‬
‫ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اوالد ہو۔ اور اگر اوالد نہ ہو اور صرف‬
‫ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے‬
‫بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی‬
‫تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے‬
‫ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں‬
‫پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے‪ ،‬یہ حصے خدا‬
‫کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے واال اور حکمت واال ہے ﴿‪﴾۱۱‬‬
‫سیاق و سباق‪ --:‬یہاں اس آیت میں قانون وراثت بیان کیا گیا ھے۔ یہ قانون ہللا‬
‫تعالی کی طرف سے حکم کردہ ھے اور اب کوئی مسلمان اپنی طرف سے کوئی‬
‫بھی وصیت نہیں کر سکتا۔‬

‫ایک لڑکے کا حصہ ایک لڑکی سے دوگنا ھے۔ )‪(1‬‬


‫اگر لڑکیاں زیادہ ھوں تو ہر لڑکے کا حصہ ہر لڑکی سے دو گنا ھے۔ )‪(2‬‬
‫اگر ایک لڑکی اور ایک ھی لڑکا ھو تو اس لڑکی کے حصے سے لڑکا )‪(3‬‬
‫کا حصہ دو گنا ھے۔‬
‫اگر ورثاء میں صرف لڑکے ھو تو انکا سب کا حصہ آپس میں برابر ھوگا )‪(4‬‬
‫اگر صرف لڑکیاں ھوں اور دو یا دو سے زیادہ ھوں تو انکو ترکہ کا دو )‪(5‬‬
‫تہائی حصہ دیا جائۓ گا۔‬
‫اگرصرف ایک لڑکی ھو تو اسکو ترکے کا نصف حصہ دیا جائے گا۔ )‪(6‬‬
‫اس سے پہلے ترکے کا چھٹا حصہ میت کے والدین میں تقسیم کیا جائۓ )‪(7‬‬
‫گا اس سے پہلے کے آپ اوالد کا حصہ تقسیم کیا جائے گا۔‬
‫اگر اوالد نہیں اور ترکے کے وارث صرف والدین ھیں تو تیسرا حصہ )‪(8‬‬
‫ماں کا ھےاور باقی باپ کا ھے۔‬
‫والدین اور زوجین کے حصوں کو اد ا کرنے کے بعد جو کچھ بھی بچے )‪(9‬‬
‫گا وہ اوالد میں تقسیم ھو جائے گا ۔ یہ بات خود قرآن مجید نے اپنے بیان‬
‫سے واضح کر دی ھے۔‬
‫)‪(10‬‬ ‫اوالد کے حصے یعنی دوگنا ایک لڑکے کا ایک لڑکی کے‬
‫حصے سے۔ اور اگر لڑکے ھو تو برابر۔۔ اگر صرف لڑکیاں ھو تو دو‬
‫تہائی۔ اور ایک لڑکی ھو تو نصف ۔۔۔۔لیکن اوالد کے یہ تمام ترکے کے‬
‫حصے اسی وقت ادا کیے جائے گے کہ جب زوجین اور والدین کے‬
‫حصے پہلے ادا کئے جا چکے ھو گے۔ ان کے حصے ادا کرنے کے بعد‬
‫جو بچے گا اسکی تعسیم اوالد میں اوپر بیان کردہ قائدے سے کی جائے‬
‫گی۔‬
‫)‪(11‬‬ ‫یہاں ھمارے ہاں تیرا سو سال سے اس قائدے کو سمجھنے میں‬
‫غلطی کی وجہ سے یہ سمجھ لیا گیا ھے کہ لڑکیوں کا حصہ پورے‬
‫ترکے سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے ترکے کے‬
‫تقسیم میں مسائل پیدا ھوگئے ھیں ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا‬
‫چاہیے کہ زوجین اور والدین کے تمام حصوں کو ادا کرنے کے بعد جو‬
‫بھی بچے گا وہ اوالد میں تقسیم ھو گا۔ اس کے بارے میں نہائت غلط‬
‫فہمی پیدا ھوئی کیونکہ اس سے بعض اوقات حصے تقسیم ھی نہیں ھو‬
‫پاتے‪ ،‬اور لڑکیوں کے حصے ادا کردینے کے بعد جب زوجین کے‬
‫حصوں کی باری آتی تو ترکہ ختم ھو جاتا ھے۔ یہ ہللا تعالی کے بیان‬
‫کردہ قانون کے ساتھ مضحکہ خیز اقدام ھے۔ لوگو ں نے اس غلط فہمی‬
‫کی بنیاد پر جس کو بد قسمتی سے حضرت عمر رضی ہللا تعالی سے‬
‫منسوب کیا گیاہے اس طرح کا کوئی اس مسلئے کا حل نکاال کہ تمام‬
‫ترکوں میں سے ایک حصہ کاٹ کر زوجین کا حصہ نکاال جائے گا یعنی‬
‫یہ ہللا تعالی کے بیان کردہ قانون میں نقص نکالنا ھے۔ جبکہ یہ کوئی‬
‫نقص نہیں ھے بلکہ لوگوں کے سمجھنے کی غلط فہمی ھے جو یہ‬
‫سمجھتے ھیں کہ لڑکیوں کے حصہ دو تہائی براہ راست کل ترکے سے‬
‫علیحدہ کیا جائے گا بلکہ زوجین اور والدین کے ترکے کی تقسیم کے بعد‬
‫جو بچے گا اسکا دو تہائی لڑکیوں کا ھو گا ۔ اور اگر اوالد میں صرف‬
‫ایک لڑکی ھو تو اس کا نصف ۔ ھماری فقہ میں اسے عول کا طریقہ کہا‬
‫جاتا ھے کہ بعض حصوں میں کچھ کمی کرکے زوجین کا حصہ ادا کرنا‬
‫۔۔ جب کہ یہ سیدھا سیدھا ہللا تعالی کے بیان کردہ اصول سے متضاد ھے۔‬
‫آج بھی ھمارے فقہاء اسی طریقے یعنی عول کے طریقے اس قسم کے‬
‫مسائل میں فیصلہ دیتے ھیں۔ اور یہی فقہ آج بھی ھمارے ہاں رائج ھے۔‬
‫یہ بات جب کہیں بیان کی جاتی ھے تو مضحکہ خیز سمجھی جاتی ھے۔‬
‫بلکہ اسی ضمن میں ایک مشہور روائیت ھے کہ حضرت عمر رضی ہللا‬
‫تعالی کی وفات کے بعد حضرت عبدہللا بن عباس جو قرآن کے ایک بہت‬
‫بڑے عالم تھے انہوں نے اپنے شاگردوں کی ایک مجلس میں کہا کہ جو ہللا‬
‫ریت کے زروں کو بھی گن سکتا ھے‪ ،‬میں یہ کیسے مان لوں کے ہو‬
‫دوسرے اور تیسرے حصے کو جمع نہیں کر سکا۔ جب انہوں نے یہ بات‬
‫کہی تو ان کے شاگردوں نے کہا کہ اب آپ کی یہ بات کون سنے اور‬
‫مانے گا جب حضرت عمررضی ہللا جیسے انسان نے اس مسئلے کو اس‬
‫طرح حل کیا ھے۔ بحرحال انہوں نے کہا کہ میں تو اسی کی گوائی دیتا اور‬
‫اس کو غلط سمجھتا ھوں جو بھی ھوا ھے۔۔ اسی قسم کے شدید تبصرے‬
‫کو ھمارے فقہاء نقل بھی کرتے ھیں۔ اسی مسئلے کو فقہ القرآن پر جو‬
‫ایک بڑی کتاب ھے االحکام القرآن جساس کی اس میں نقل کرتے ھیں اور‬
‫انکے شاگردوں تک کے نام بھی نقل کرتے ھیں جن کے سامنے انہوں نے‬
‫یہ تبصرہ کیا ہے۔ یہ بات انکے ایک شاگرد نے ان سے پوچھی کہ آپ نے‬
‫حضرت عمر رضی ہللا تعالی سے اس وقت کیوں نہیں پوچھی یہ بات؟ تو‬
‫انہوں نے جواب میں کہا کہ کیونکہ وہ ایک ہیبت ناک شخصیت کے مالک‬
‫تھے تو میں ان سے یہ بات پوچھ نہیں سکا ۔ حاالنکہ یہ ایک سادہ اور‬
‫سیدھی بات ھے جو صرف ایک غلط فمہی کی بنیاد پر قائم کی گئی۔ اور‬
‫وہ غلط فمہی صرف یہ ھے کہ سب سے پہلے زوجین اور والدین کے‬
‫حصے ادا کئے جائیں گے اس کے بعد ترکے کا جو حصہ بچے گا وہ‬
‫اوالد میں تقسیم کیا جائے گا نہ کہ براہ راست اوالد کا حصہ کل ترکے‬
‫سے ھو گا۔۔ بس یہ غلط فمہی تقریبا تیرہ سو سال سے امت میں رھی‬
‫جسے بعد میں عول کے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی اور بد‬
‫قسمتی سے یہ سیدنا حضرت عمر رضی ہللا تعالی سے منسوب کر دی‬
‫گئی۔‬
‫)‪(12‬‬ ‫ھمارے ہاں اوالد کا لفظ پوری اوالد کے لئے نہیں بلکہ لڑکوں‬
‫کے لئے استعمال کیا جاتا ھے۔ اوالد اگر صرف ایک ھی ھو چاہے لڑکی‬
‫ھو یا لڑکا اسے اوالد ھی کہا جاتا ھے۔‬
‫)‪(13‬‬ ‫اور اگر بہن بھائی ھو یا بہن ھو یا بھائی۔۔ ھمارے ھاں عجیب و‬
‫غریب تبصروں اور سواالت سے اس سارے معاملے کو مضحکہ خیز بنا‬
‫دیا ھے۔‬
‫)‪(14‬‬ ‫جب زوجین کے حصے بیان کرنے کی باری آئی ھے تو یہاں‬
‫بات کو روک دیا گیا ھے اور کہا گیا ھے کہ اس سب کو بیان کرنے کی‬
‫ضرورت کیوں محسوس کی گئ ھے اور اس بیان کا مقصود کیا ھے۔‬
‫جب قرآن مجید نے والدین کے حصے مقرر کرنے کی بات کی‬ ‫(‪)15‬‬
‫تو پہلے کہ بیان کیا ھے کہ یہ حصے وصیت اور قرض ادا کرنے کے‬
‫بعد تقسیم کئے جائے گے۔ یعنی اگر مرنے والے نے کوئی وصیت کی ھو‬
‫تو اس کی وصیت پہلے پوری کی جائے گی ۔ یا اگر اس کے ذمے کوئی‬
‫قرض ھو تو قرض کو ادا کرنے کے بعد والدین کے حصے تقسیم کئے‬
‫جائیں گے۔‬
‫یہاں پھر دو بحثوں نے جنم لیا کہ جو بھی حصے تقسیم کئے‬ ‫(‪)16‬‬
‫جائیں گے کیا وہ وصیت کرنے والے کی وصیت کو پورا کرنے کے بعد‬
‫ادا کئے جائیں گے۔ (ب) مرنے واال اپنے کتنے حصے میں وصیت کر‬
‫سکتا ھے؟‬
‫وصیت کرنے واال اگر کسی مجبوری سے کوئی وصیت کرتا‬ ‫(‪)17‬‬
‫ھے ۔ یا وصیت کرنے واال اگر کوئی وصیت کرتا ھے تو اسکی کوئی‬
‫خاص وجہ ھوتی ھے تو اس وجہ سے اس پر کوئی حد نہیں لگائی جا‬
‫سکتی ۔ یہ بات سرا نہ معقول ھے۔ تو اس کے بارے میں ہللا تعالی نے‬
‫سرے سے کوئی حد قائم نہیں کی ھے۔‬
‫ھمارے فقہاء نے ایک روائیت کی وجہ سے اس پر پابندی عائد‬ ‫(‪)18‬‬
‫کر دی ھے کہ مرنے واال ایک تہائی سے ذیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا‬
‫۔ اس روائیت کے ہر طرح کے مطالعے سے پتہ چلتا ھے کہ وہ روائیت‬
‫کسی بھی حوالے سے اس پابندی کا مآخذ نہیں بنتی ۔‬
‫ایک خاص معاملے میں جب کوئی شخص نبی کریم کی خدمت‬ ‫(‪)19‬‬
‫میں حاضر ھوکر کہتا ھے کہ میں ہللا تعالی کے راستے میں اپنے مال‬
‫سے وصیت کرنا چاہتا ھوں تو کتناکرو اپنا سارا مال و متاع ہللا تعالی کی‬
‫راہ میں وصیت کر دوں تو آپ نے فرمایا نہیں تمھارے آعزاء و اقرباء کا‬
‫حق بھی ھے انکو اس سے محروم نہ کرو۔ پھر پوچھا کہ آدھا کردوں تو‬
‫آپ نے کہا نہیں اس قدر بھی نہیں ‪ ،‬تو پھر کہا کہ تیسرا حصہ کر دوں تو‬
‫آپ نے کہا اس قدر درست ھے۔ یہاں اس روائیت کا اطالق قانون کے‬
‫طور پر نہیں ھے۔ یہ روایت کو صرف ایک انفرادی معاملے کی احثیت‬
‫حاصل ھے۔ اور نبی صلی ہللا تعالی نے یہاں حکم بھی نہیں فرمایا بلکہ‬
‫کوئی فرد اگر مشورہ مانگ رھا تو اسکو مشورہ ھی دیا ھے۔ تو یہ کہنا‬
‫کہ کوئی بھی شخص وصیت کے معاملے میں کسی حد کا پابند بنا دیا گیا‬
‫ھے تو قرآن مجید نے ہرگز ایسا نہیں کیا ھے۔ لیکن ھمارے فقہاء نے‬
‫اوپر بیان کی گئی روائیت کی وجہ سے وصیت کرنے والے کے لئے یہ‬
‫حد مقرر کردی ھے کہ وہ صرف ایک تہائی حصہ ھی کی وصیت کر‬
‫سکتا ھے ۔ قرآن مجید کی آیت اس معاملے میں بلکل مطلق ھے۔ اور وہ‬
‫ہر ایک کو حق دے رھا ھے کہ وہ جو بھی وصیت اپنی خواہش کے‬
‫مطابق کرنا چائے کر سکتا ھے ۔ ھمارے فقیہاء کی لگائی گئی حد کا‬
‫قرآن مجید کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھے۔ نہ اس کے اطالق کی گنجائش‬
‫ھے۔ قرآن مجید تو پوری طرح کہ رھا ھے کہ مرنے والے نے جو بھی‬
‫وصیت کر دی ھو اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد۔‬
‫نہ ھی اس روائیت نے کسی قسم کی کوئی قانونی یا شرعی‬ ‫(‪)20‬‬
‫پابندی عائید کی گئی ھے۔‬
‫رشتہ داری کے حق میں تو ہللا تعالی کا بیان کردہ قانون مطلق‬ ‫(‪)21‬‬
‫طور پر الگو ھو گا‪ ،‬اور اسکے سامنے کسی کو بھی نہ کہنے کی اجازت‬
‫ھے ۔ نہ کوئی اس پر انکار کی طاقت رکھتا ھے۔‬
‫لیکن ضرورت اور خدمت کی بنیاد پر یہ کسی اور بنیاد پر اگر‬ ‫(‪)22‬‬
‫کوئی شخص اسکے لئے کوئی وصیت کرتا ھے تو اسکو اسکے لئے ہللا‬
‫تعالی نے کسی حد کا پابندی نہیں کیا ۔ اسکی مثال درج زیل ھے۔‬
‫ایک شخص کہ جس کے چار بچے ھیں۔ اس میں تین کو پڑھا‬ ‫(‪)23‬‬
‫لکھا دیا گیا ۔ تعلیم و تربیت مکمل ھوگئی ۔ گھر بنا کر دے دیے گئے۔‬
‫شادیاں کر دی گئی ۔ اور اپنی زندگی مزے سے گزار رھے ھیں اور ایک‬
‫چھوٹا بیٹا ھے جسی کی ابھی تعلیم مکمل نہیں ھوئی۔ اس کے روزگار کا‬
‫کوئی بندوبست نہیں ھوا۔ اسکے لئے علیحدہ سے کوئی رھائش کا‬
‫بندوبست نہیں ھے۔ اسکی شادی ابھی باقی ھے اور اگر ایک شخص‬
‫چائے کہ اس کے حق میں وہ کوئی خاص وصیت کرے گا تو اسے یہ‬
‫وصیت کرنے کا پورا پورا حق ھے۔ اس پر کسی کو کوئی پابندی لگانے‬
‫کا کوئی اختیار نہیں ھے ۔‬
‫ایک شخص کے بہت سارے بچے ھیں کوئی امریکہ ‪ ،‬انگلستان‬ ‫(‪)24‬‬
‫میں زندگی گزار رھے ھیں اور یہ شخص بڑھاپے میں ایڑھیاں رگڑ رھا‬
‫ھے ۔ ایک بچے کا بچی نے اس بات کا فیصلہ کیا ھے کہ وہ اپنے والد یا‬
‫والدہ کی خدمت کرے گی اور جب تک وہ زندہ ھیں ‪ ،‬انکی خدمت کا حق‬
‫ادا کرےگا یا کرے گی ‪ ،‬اس کے حق میں اگر کوئی وصیت کرنے واال‬
‫کوئی وصیت کرنا چائے تو وہ ضرور کر سکتا ھے ۔۔ اور اس میں‬
‫اسکے اوپر کوئی پابندی ہللا تعالی نے عائد نہیں کی۔‬
‫اب یہاں بات روک کر اعزاء و اقراباء کے تعین کی بات کی‬ ‫(‪)25‬‬
‫جائے گی ۔ یعنی آپ اعزاء و اقراباء کہیں گے کس کو؟‬
‫کوئی شخص صرف اپنی اوالد کو ھی اپنا وارث سمجھتا ھے۔‬ ‫(‪)26‬‬
‫کوئی اپنے والدین اور اپنی اوالد کو اپنا وارث سمجھتا ھے۔‬ ‫(‪)27‬‬
‫کوئی اپنے والدین‪ ،‬اپنی بیوی اور اپنی اوالد کو اپنا وارث قرارد‬ ‫(‪)28‬‬
‫دیتا ھے‬
‫اور کوئی بہن بھائیوں کو بھی اپنے آعزا و اقراباء کہتا ھے ۔‬ ‫(‪)29‬‬
‫انسانوں کے ہاں ہللا تعالی کبھی بھی کسی معاملے میں مداخلت‬ ‫(‪)30‬‬
‫نہیں کرتے جہاں عقل انسانی کے پاس اس کے لئے فیصلہ کرنے کی‬
‫کوئی صالحیت موجود ھوتی ھے ۔‬
‫جب آپ وراثت کے حصے مقرر کرتے ھیں تو یہ انسانئیت کی‬ ‫(‪)31‬‬
‫پوری تاریخ گواہ ھے کہ انسانوں کے پاس آعزا و اقراباء سے نسبت اور‬
‫قربت کی نسبت قائم کرنے کا کبھی کوئی اصول اورقاعدہ نہیں تھا ۔‬
‫کچھ لوگ اپنے والدین کے بارے میں کہتے ھیں کہ ان سے‬ ‫(‪)32‬‬
‫قریب کوئی رشتہ نہیں ‪ ،‬انہوں نے ھی وجود بخشا‪ ،‬تعلیم و تربیعت کی‪،‬‬
‫پاال پوسا‪ ،‬چلنا سکھایا۔ رھائش فراہم کی۔ لہذا ان سے نزدیک کوئی اور‬
‫نہیں۔‬
‫کوئی یہ سمجھتا رھا کہ ماں باپ تو کھا پی رھے۔ انہوں نے تو‬ ‫(‪)33‬‬
‫عیش و عشرت کی زندگی گزاری ۔ اب وہ ویسے بھی موت کے قریب‬
‫ھیں توانکو مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں کہ سب ضرورت تو‬
‫انکی اوالد کو ھے ۔ لہذا ان لوگوں کے نزدیک انکے مال و دولت کے‬
‫ذیادہ حقدار صرف انکے بچے ھوتے ھیں۔‬
‫کچھ کے ھاں سب سے زیادہ عزیز رشتہ بیوی کا ھے۔۔‬ ‫(‪)34‬‬
‫کچھ کے ہاں اسے میں بہن بھائی بھی شامل ھیں‬ ‫(‪)35‬‬
‫لہزآ ہللا تعالی نے کہا کہ میں نے وراثت کا قانون اس لئے‬ ‫(‪)36‬‬
‫واضح کردیا تا کہ تم اس معاملے میں کسی بھی طرح کی ذیادتی نہ کرو۔‬
‫یہ نہ ھو کہ تم بعض کے لئے بعض کے حقوق پائمال کر دو۔ یہ‬ ‫(‪)37‬‬
‫اصل میں تمھارے ھی اوپر کا وبال ھوگا۔‬
‫یہاں ایک بہت بڑی بات کی وضاحت بھی کر دی گئی ھے کہ‬ ‫(‪)38‬‬
‫ھم اکثر یہ کہتے ھیں کہ ھمارے پاس پہلے سے مکمل ضابطہ حیات‬
‫ھے۔ حاالنکہ ہللا تعالی نے انسانوں کو حیوانوں کی طرح پیدا نہیں کیا‬
‫انہیں عقل سلیم عطا کی ھے۔ اور انکو زندگی میں فیصلے کرنے کی‬
‫طاقت و فہم عطا کیا ھے۔ اس نے اپنی زندگی میں عقل سے بات کو‬
‫سمجھنا ھے۔ اور اسی عقل و حکمت سے اس کا فیصلہ بھی کرنا ھے۔‬
‫اور اسکے لئے اسکو کسی آفاقی قانون کا پابند بھی نہیں کیاگیا ے۔ کوئی‬
‫آفاقی قانون اس وقت تک نہیں اترتا جب تک اس معاملے کے بارے میں‬
‫کوئی فیصلہ کرنے کے لئے انسانی عقل کے پاس صالحیت نہ ھو ۔جب‬
‫کوئی معاملہ ایسا آتا ھے جہاں انسانوں کی عقل و فہم اس کے حل‬
‫سےقاصر ھوں تو پھر ہللا تعالی کی طرف سے ایک قانون اور قائدہ بھیجا‬
‫جاتا ہے تاکہ انسان کو فیصلہ کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہ ھو۔‬
‫ارشاد باری تعالی ھے کہ تم نہیں جانتے کہ تمھارے والدین یا‬ ‫(‪)39‬‬
‫تمھاری اوالد میں کون بلحاظ منصب تم سے قریب تر ھے۔۔ اس لئے یہ‬
‫حصے ہللا تعالی نے مقرر کر دیے ھیں ۔‬
‫ہللا تعالی علم و حکمت واال ھے۔‬ ‫(‪)40‬‬

You might also like